Tuesday, June 18, 2019

عاصمہ شیرازی کا کالم: انہونی سے ہونی تک۔۔۔

دھوان کی انجری کے بعد پاکستان کو موقع ملا تھا کہ وہ انڈیا کے نئے اوپنرز کو جلد آؤٹ کر سکیں لیکن لوکیش راہول اور روہت شرما نے پاکستان بولنگ کی دھجیاں اڑا دیں اور 23 اوورز میں 136 رنز کی اوپننگ شراکت قائم کی۔
اس شراکت کی سب سے اہم بات روہت شرما کی بیٹنگ تھی جن کا قسمت نے ساتھ دیا اور متعدد بار بال بلے کے اندرونی کنارے سے لگ کر باؤنڈری پر گئی اور اس کے علاوہ 33 اور 38 رنز پر ان کے یقینی رن آؤٹ بھی بچ گئے۔
لیکن پاکستانی بولرز نے بھی ان کی پوری مدد کی اور مسلسل روہت کو شارٹ پچ گیندیں کرائیں جن کی مدد سے وہ اپنا
جو ہو رہا ہے کبھی نہ ہوا تھا، جو ہو گا وہ بھی کبھی نہیں ہوا۔۔۔
ہونی کو کون روک سکتا ہے، ہونی ہو کر رہتی ہے۔ اور جو اب ہو رہا ہے دراصل وہی ہو رہا ہے جسے ہونا تھا۔ اس ہونی کے پیچھے سب اچھا نہیں تھا مگر اب اچھے کی اُمید بن چلی ہے۔
جس طرح سیاسی بساط پر کھیل جاری ہے اس سے فی الحال یہ تاثر مل رہا ہے کہ کچھ اچھا نہیں مگر ذرا لمحہ بھر کو سوچیے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والی سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر کیسے آتیں۔
ازراہِ کرم اس صفحے کو اُس صفحے سے الگ سمجھا جائے۔
اگر پی پی اور ن لیگ کے سربراہان بدعنوانی کے الزامات کے بعد سلاخوں کے پیچھے نہ ہوتے تو ابھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں ضرور مصروف ہوتے۔
کوئی کسی کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکال رہا ہوتا اور کوئی سینیٹ انتخابات کی طرح پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے کی کوششوں میں مصروف ہوتا۔ کوئی سندھ کارڈ کھیل رہا ہوتا کوئی پنجاب کارڈ۔۔ الزامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہتا اور یوں وہ صفحہ کبھی تیار نہ ہوتا جو ہو چکا۔
جو ہو رہا ہے اگر نہ ہوتا تو کبھی پرانی قیادت کے وجود سے ماضی کے بیگیج سے آزاد نوجوان قیادت ظاہر نہ ہوتی جنھیں بہرحال جی ایچ کیو کے گملے میں لگے سیاست دان نہیں کہا جا سکتا۔
صرف یہی نہیں، جو ہوا اگر نہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمن ماضی سے مختلف کردار میں نہ ہوتے۔ جو کچھ ہوا اُسی کا نتیجہ یہ ہے کہ خیبر سے کراچی تک عوام ایک ہی صفحے پر جلد دکھائی دے سکتے ہیں۔
ہونی نے ہونا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے وجود میں آنا تھا۔ امیدوں، توقعات اور خواہشوں کو مہنگائی، دُہائی اور مایوسی میں بدلنا تھا۔ کس کو معلوم تھا کہ محض دس ماہ میں وہ ہو جائے گا جو سالوں میں نہیں ہو سکتا تھا۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کو جیل میں ڈال کر اور اختلافی آوازوں کو دبا کر جو ماحول بنایا گیا ہے اس میں بڑی حکمت ہے اور چونکہ میں مثبت سوچ کی حامل ہوں تو محسوس ہو رہا ہے کہ اچھا ہے کہ اب سب کچھ کھل کر ہو رہا ہے۔
پس پردہ کردار سٹیج پر سامنے رقصاں ہیں، دستانوں میں چھپے ہاتھوں کی انگلیوں کے چھاپوں سے تخلیق پانے والے کردار واضح ہو رہے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سکرپٹ رائٹر کو بھی جلدی ہے کہ کسی طرح مصلحت پسندوں کو ایک صفحے پر اکٹھا کر دیا جائے تاکہ ان سے آخری لڑائی لڑی جا سکے۔
وطن عزیز میں جو ہوتا رہا ہے اس سے ایک بات تو عیاں ہے کہ ہر جادو کا توڑ سنیاسی بابا کے پاس ہوتا ہے مگر اب اتنا جادو ہو چکا کہ اثر ختم ہو رہا ہے۔
یہی سوچنا ہو گا کہ اگر آپ کے ہاتھ کے سارے پتے نکل کر ایک جگہ اکٹھے ہو گئے تو کیا ہو گا۔ ایسا بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ سنیاسی بابا اپنے سارے طوطے ایک ایک کر کے آزاد کر رہے ہیں۔
پسندیدہ پُل شاٹ کھیلتے رہے اور اس کی مدد سے 46 رنز حاصل کیے۔
پاکستانی بولرز نے روہت کی اننگز کی 113 گیندوں میں سے 51 فیصد گیندیں انھیں شارٹ پچ کرائیں تھیں۔
یہ اس ورلڈ کپ میں روہت کی دوسری سنچری تھی اور اب وہ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رن بنانے والے بلے بازوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں۔
انڈیا کے مقابلے میں پاکستانی بیٹنگ کی سب سے واضح کمزوری یہ نظر آئی کہ وہ سنگل اور ڈبل لینے سے قاصر رہے اور اس کی وجہ سے انڈین بولرز کو حاوی ہونے کا موقع مل گیا۔
336 کا سکور قطعی طور پر ایک پہاڑ جیسا ہدف تھا لیکن جب بھونیشور کمار پٹھے کھنچ جانے کے باعث چلے گئے تو پاکستان بلے بازوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے تھا لیکن ہوا اس کے برعکس جب ورلڈ کپ میں پہلا میچ کھیلنے والے وجے شنکر نے اپنی پہلی ہی گیند پر امام الحق کو آؤٹ کر دیا۔
اگر پاکستان کی اننگز کو دیکھا جائے تو انھوں نے ورلڈ کپ میں انڈیا کے کامیاب ترین بولرز بمراہ اور یوزویندرا چہل کو نہ صرف قابو میں رکھا بلکہ ان کے خلاف تیزی سے رن بھی بنائے لیکن جو وجہ پاکستان بیٹنگ کو لے ڈوبی وہ تھی انڈیا کے قدرے کمزور فاسٹ بولرز، وجے شنکر اور ہاردک پانڈیا کو وکٹیں دینا۔
ان دونوں بولروں نے مجموعی طور پر 14 اوورز کرائے اور صرف 66 رنز کے عوض چار وکٹیں لے کر پاکستانی بیٹنگ کی کمر توڑ دی۔
کرک وز نے اپنے تبصرے میں بتایا کہ انڈیا ورلڈ کپ میں کھیلے گئے ہر میچ میں انتہائی زبردست کارکردگی دکھائی ہے اور ان کی بولنگ لائن اپ میں ورائٹی نے انھیں دوسری ٹیموں پر برتری دے رکھی ہے۔
پاکستانی بیٹنگ بھی اس بات کو جانتے ہوئے اپنی خامیوں پر قابو نہ پا سکی۔
گذشتہ میچوں کی طرح اس بار بھی پاکستان نے درمیانے اوور میں یکے بعد دیگرے وکٹیں گنوانے کی روایت قائم رکھی اور ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے بعد اس بار بھی پاکستان کا مڈل آرڈر ریت کی دیوار ثابت ہوا۔

Tuesday, June 11, 2019

在天空中监测全球水资源

一年一度的“世界水周”将于8月26日至31日在瑞典首都斯德哥尔摩举行,今年的主题为“水,生态系统和人类发展。”

理解水资源对生态环境和人类社会的影响,离不开科技手段的支撑。过去十六年,一对由美国国家航空航天局( )和德国航空太空中心发射的卫星(GRACE)在地球轨道上移动,通过不同区域地球引力的差异来判断流域水储量的大小,以此追踪水在海洋中、陆地上以及大气层中的运动。

全世界的科学家们利用GRACE观测到的数据完整而精确地监测流域水储量的巨大变化。近年来基于GRACE观测的研究表明,直接的人类活动和气候变化正越来越深刻地影响全球的水文情势。

太空中的“眼睛”

GRACE双星于2002年发射升空,两颗卫星在距地400多公里的轨道上运行。与其他卫星工作原理不同的是,GRACE卫星探测的是地球重力场的细微变化。地球上的海洋、冰川和地下水的流动和改变,都会影响地球某些区域的相对“重量”,从而引起地球重力场的相应变化。这微弱的变化逃不过两颗卫星的“眼睛”。重力场的变动会改变两颗卫星之间的相对距离,并被卫星通过微波测距技术记录下来。根据这一数据,研究者可以推算出地球重力场发生的改变,进而估计出水的总体质量发生的变化

追踪水资源变化

2002年以来,GRACE重力卫星为我们描绘了全球淡水可用性的面貌。最近的一项研究对2002年到2016年GRACE卫星观测到的34个水储量变化趋势进行了量化分析。这些区域水储量的上升或下降幅度都远远超过了之前水文模型的模拟,有些观测区域的变化是模拟数据的十倍之多。

所谓流域总水储量 ( 该研究的作者之一,清华大学水利水电工程系龙笛研究员告诉中外对话,水储量的减少有自然和人为因素,但水储量的增加目前基本上都是自然原因造成的

他认为,通过人为干预,例如提高农业用水效率,减小地下水开采等措施,可以降低水储量亏损的速率,也可以实现水储量的恢复和水资源可持续利用。龙笛表示,“准确地评估淡水供应量的变化对于预测区域的粮食供应、人类及生态系统的健康、能源生产和社会发展至关重要”。

GRACE“眼中”的中国水资源

水资源的可持续管理是全球颇为棘手的环境挑战。在中国范围内,除了华北平原之外,新疆天山和西南河流源区的水储量下降也非常明显。龙笛介绍说,西北和西南地区的水储量下降主要是由于气温上升造成高山冰川和永久性积雪的融化。冰雪一方面以升华的形式进入大气,另一方面形成冰雪融水之后进入土壤,又以蒸散发的形式回到大气。除此之外,冰雪融水径流汇入河道,被用于农业灌溉、生活供水等。

这些变化预示着,随着气候变化的影响,有限的水资源将日益变得更加珍贵。但龙笛认为,水储量的变化并非不可逆。气候波动和变化会在导致一些地方水储量亏损的同时,另一些地方的水储量会增加。通过水利工程的调蓄,如兴建水库和跨流域调水,可以使水资源得到“人为再分配”和合理利用。当然,需要尽可能减小水利工程对生态环境的负面影响,并发挥和最大化水利工程在维系生态环境方面的积极作用。

今年5月22日,承担GRACE卫星后续任务的 On卫星从美国飞向太空,接替2017年10月退役的两颗卫星,开启重力卫星监测地球水资源的新篇章。water  )由几部分组成,包括地表水(湖泊、水库、河流、冰川、积雪等)、土壤水和地下水

根据该研究,气候变化和人类活动深刻改变了全球水文情势。这在中国华北地区相当明显,大规模引调水工程,以及最近的节水小麦推广,都是人类活动显著改变区域水储量及其分布的重要例证。

被低估的影响

同样根据GRACE重力卫星的监测数据,2018年初发表的一项研究指出,所有的水文模型都严重低估了全球流域水储量的变化。

研究发现底格里斯河流域、恒河流域、印度河流域和美国加州中央谷地等区域由于农业灌溉、地下水开采造成陆地水储量的大幅度减少;同样水储量大量减少的美国阿拉斯加、南美的巴塔哥尼亚等则是由于气候变化造成的大规模冰川融化;而在冈比亚、尼日尔、南非、印度中部、中国青藏高原北部以及长江中下游地区都发现了明显的陆地水储量的增长