اس شراکت کی سب سے اہم بات روہت شرما کی بیٹنگ تھی جن کا قسمت نے ساتھ دیا اور متعدد بار بال بلے کے اندرونی کنارے سے لگ کر باؤنڈری پر گئی اور اس کے علاوہ 33 اور 38 رنز پر ان کے یقینی رن آؤٹ بھی بچ گئے۔
لیکن پاکستانی بولرز نے بھی ان کی پوری مدد کی اور مسلسل روہت کو شارٹ پچ گیندیں کرائیں جن کی مدد سے وہ اپنا
جو ہو رہا ہے کبھی نہ ہوا تھا، جو ہو گا وہ بھی کبھی نہیں ہوا۔۔۔
ہونی
کو کون روک سکتا ہے، ہونی ہو کر رہتی ہے۔ اور جو اب ہو رہا ہے دراصل وہی ہو رہا ہے جسے ہونا تھا۔ اس ہونی کے پیچھے سب اچھا نہیں تھا مگر اب اچھے کی
اُمید بن چلی ہے۔ جس طرح سیاسی بساط پر کھیل جاری ہے اس سے فی الحال یہ تاثر مل رہا ہے کہ کچھ اچھا نہیں مگر ذرا لمحہ بھر کو سوچیے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والی سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر کیسے آتیں۔
ازراہِ کرم اس صفحے کو اُس صفحے سے الگ سمجھا جائے۔
اگر پی پی اور ن لیگ کے سربراہان بدعنوانی کے الزامات کے بعد سلاخوں کے پیچھے نہ ہوتے تو ابھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں ضرور مصروف ہوتے۔
کوئی کسی کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکال رہا ہوتا اور کوئی سینیٹ انتخابات کی طرح پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے کی کوششوں میں مصروف ہوتا۔ کوئی سندھ کارڈ کھیل رہا ہوتا کوئی پنجاب کارڈ۔۔ الزامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری رہتا اور یوں وہ صفحہ کبھی تیار نہ ہوتا جو ہو چکا۔
جو ہو رہا ہے اگر نہ ہوتا تو کبھی پرانی قیادت کے وجود سے ماضی کے بیگیج سے آزاد نوجوان قیادت ظاہر نہ ہوتی جنھیں بہرحال جی ایچ کیو کے گملے میں لگے سیاست دان نہیں کہا جا سکتا۔
صرف یہی نہیں، جو ہوا اگر نہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمن ماضی سے مختلف کردار میں نہ ہوتے۔ جو کچھ ہوا اُسی کا نتیجہ یہ ہے کہ خیبر سے کراچی تک عوام ایک ہی صفحے پر جلد دکھائی دے سکتے ہیں۔
ہونی نے ہونا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے وجود میں آنا تھا۔ امیدوں، توقعات اور خواہشوں کو مہنگائی، دُہائی اور مایوسی میں بدلنا تھا۔ کس کو معلوم تھا کہ محض دس ماہ میں وہ ہو جائے گا جو سالوں میں نہیں ہو سکتا تھا۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کو جیل میں ڈال کر اور اختلافی آوازوں کو دبا کر جو ماحول بنایا گیا ہے اس میں بڑی حکمت ہے اور چونکہ میں مثبت سوچ کی حامل ہوں تو محسوس ہو رہا ہے کہ اچھا ہے کہ اب سب کچھ کھل کر ہو رہا ہے۔
پس پردہ کردار سٹیج پر سامنے رقصاں ہیں، دستانوں میں چھپے ہاتھوں کی انگلیوں کے چھاپوں سے تخلیق پانے والے کردار واضح ہو رہے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سکرپٹ رائٹر کو بھی جلدی ہے کہ کسی طرح مصلحت پسندوں کو ایک صفحے پر اکٹھا کر دیا جائے تاکہ ان سے آخری لڑائی لڑی جا سکے۔
وطن عزیز میں جو ہوتا رہا ہے اس سے ایک بات تو عیاں ہے کہ ہر جادو کا توڑ سنیاسی بابا کے پاس ہوتا ہے مگر اب اتنا جادو ہو چکا کہ اثر ختم ہو رہا ہے۔
یہی سوچنا ہو گا کہ اگر آپ کے ہاتھ کے سارے پتے نکل کر ایک جگہ اکٹھے ہو گئے تو کیا ہو گا۔ ایسا بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ سنیاسی بابا اپنے سارے طوطے ایک ایک کر کے آزاد کر رہے ہیں۔
پسندیدہ پُل شاٹ کھیلتے رہے اور اس کی مدد سے 46 رنز حاصل کیے۔
پاکستانی بولرز نے روہت کی اننگز کی 113 گیندوں میں سے 51 فیصد گیندیں انھیں شارٹ پچ کرائیں تھیں۔
یہ اس ورلڈ کپ میں روہت کی دوسری سنچری تھی اور اب وہ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رن بنانے والے بلے بازوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں۔
انڈیا کے مقابلے میں پاکستانی بیٹنگ کی سب سے واضح کمزوری یہ نظر آئی کہ وہ سنگل اور ڈبل لینے سے قاصر رہے اور اس کی وجہ سے انڈین بولرز کو حاوی ہونے کا موقع مل گیا۔
336 کا سکور قطعی طور پر ایک پہاڑ جیسا ہدف تھا لیکن جب بھونیشور کمار پٹھے کھنچ جانے کے باعث چلے گئے تو پاکستان بلے بازوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے تھا لیکن ہوا اس کے برعکس جب ورلڈ کپ میں پہلا میچ کھیلنے والے وجے شنکر نے اپنی پہلی ہی گیند پر امام الحق کو آؤٹ کر دیا۔
اگر پاکستان کی اننگز کو دیکھا جائے تو انھوں نے ورلڈ کپ میں انڈیا کے کامیاب ترین بولرز بمراہ اور یوزویندرا چہل کو نہ صرف قابو میں رکھا بلکہ ان کے خلاف تیزی سے رن بھی بنائے لیکن جو وجہ پاکستان بیٹنگ کو لے ڈوبی وہ تھی انڈیا کے قدرے کمزور فاسٹ بولرز، وجے شنکر اور ہاردک پانڈیا کو وکٹیں دینا۔
ان دونوں بولروں نے مجموعی طور پر 14 اوورز کرائے اور صرف 66 رنز کے عوض چار وکٹیں لے کر پاکستانی بیٹنگ کی کمر توڑ دی۔
کرک وز نے اپنے تبصرے میں بتایا کہ انڈیا ورلڈ کپ میں کھیلے گئے ہر میچ میں انتہائی زبردست کارکردگی دکھائی ہے اور ان کی بولنگ لائن اپ میں ورائٹی نے انھیں دوسری ٹیموں پر برتری دے رکھی ہے۔
پاکستانی بیٹنگ بھی اس بات کو جانتے ہوئے اپنی خامیوں پر قابو نہ پا سکی۔
گذشتہ میچوں کی طرح اس بار بھی پاکستان نے درمیانے اوور میں یکے بعد دیگرے وکٹیں گنوانے کی روایت قائم رکھی اور ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے بعد اس بار بھی پاکستان کا مڈل آرڈر ریت کی دیوار ثابت ہوا۔
No comments:
Post a Comment